Pakistan Real Estate Times - Pakistan Property News

Full Version: Foreign Visits of Presidents, Pakistan & Maldive
You're currently viewing a stripped down version of our content. View the full version with proper formatting.
مالدیپ: صدر کو سفر کے لیے مالی مدد درکار

سہیل حلیم
[Image: 090324065201_suhail_haleem_byline106.jpg]
بی بی سی اردو ڈاٹ کام، نئی دلی



[Image: 090908092842_maldievs_president.jpg]

عالمی حدت کی وجہ سے اگر سطح سمندر میں اضافہ ہوتا ہے تو مالدیپ صفحہ ہستی سے مٹ سکتا ہے لیکن مالی دشواریوں کی وجہ سے ملک کے صدر ماحولیات میں تبدیلی پر یورپ میں ہونے والی سربراہی کانفرنس میں بھی شرکت نہیں کر سکیں گے۔

صدر محمد نشہید کہتے ہیں کہ وہ کوپن ہیگن میں ہونے والی اس کانفرنس کے لیے اسی صورت میں جائیں گے جب کوئی ان کے سفری اخراجات برداشت کرنے کو تیار ہو۔

مالدیپ بحرِ ہند میں تقریباً بارہ سو انتہائی چھوٹے جزیروں پر مشتمل تین لاکھ باشندوں کا ملک ہے جس کی زیادہ تر آبادی مسلمان ہے۔ زیادہ تر جزیرے غیر آباد ہیں اور سطح سمندر سے صرف ڈیڑھ میٹر اوپر ہیں۔ قومی آمدنی کا تقریباً پورا انحصار ماہی گیری اور سیاحت پر ہے لیکن حکومت کہتی ہے کہ اسے سخت مالی دشواریوں کا سامنا ہے۔

اس پس منظر میں صدر محمد نشہید نے گزشتہ برس اکتوبر میں اقتدار سنبھالا تھا۔

صدر محمد نشہید سے انٹرویو کے اقتباسات:
س) حالات کیا واقعی اتنے خراب ہیں کہ آپ کوپن ہیگن کی کانفرنس میں بھی شریک نہیں ہوسکتے؟

ج) کئی برسوں سے ہمارے ملک میں فنڈز کا غلط استعمال کیا گیا۔ ہمیں اس صورتحال کو سنبھالنا ہے لیکن حالات کو بہتر بنانے کے لیے ہمیں کفایت شعاری سے کام لینےکی ضرورت ہے۔ہمیں اپنے بجٹ کوسنبھالنے اور جمہوریت کو مضبوط کرنے کے لیے ہندوستان کے علاوہ کسی سے کوئی مدد نہیں ملی ہے۔ لہذا ہمیں اپنے وسائل سے ہی کام چلانا پڑتا ہے۔ میں لوگوں کی یہ بات سمجھ سکتا ہوں کہ کوپن ہیگن جانے پر پچاس ہزار ڈالر سےزیادہ خرچ نہیں ہوں گے، لیکن یہ صرف میرے دورے کی بات نہیں ہے۔ ہمیں دوسرے وزراء اور اعلی سرکاری اہلکاروں کے لیے بھی نظیر قائم کرنی ہے۔ اس لیے میں نے یہ فیصلہ کیا ہے کہ جب تک سفر کے اخراجات کوئی اور نہ اٹھائے میں بیرون ملک سفر نہیں کروں گا۔
س) لیکن جناب صدر، کیا یہ کہنا غلط ہوگا کہ اپنے اس فیصلے سے آپ دنیا کی توجہ مالدیپ پر مرکوز کرنی کی کوشش کر رہے ہیں اور اس کا شعاری سے کوئی تعلق نہیں ہے؟

ج) نہیں، نہیں، یہ تاثر بالکل درست نہیں۔ یہ پبلیسٹی حاصل کرنے کی کوشش نہیں ہے۔ یہ کفایت شعاری کی کوششوں کا حصہ ہے۔ یہ ایک حقیقت پسندانہ قدم ہے جو حکومت نے ہماری پالیسیوں اور بجٹ کی دشواریوں کی روشنی میں اٹھایا ہے۔
س) آپ نے یہ بھی کہا ہےکہ اگر کوئی اور سفر کے اخراجات برداشت کرے تو آپ کوپن ہیگن جانےکو تیار ہیں۔ جب آپ نے یہ بات کہی تو آپ کے ذہن میں کون تھا؟

ج) کوئی بھی دوست۔ میرے ذہن میں کوئی خاص شخص نہیں تھا۔ اگر کوئی خرچ اٹھانے کے لیے آگے آتا ہے تو بہت اچھا ہوگا۔
س) کفایت شعاری کے اقدامات کا اب تک کیا اثر سامنے آیا ہے؟ مثال کے طور پر آپنے نے صدارتی محل میں نہ رہنے کا فیصلہ کیا تھا، اس کا کوئی فائدہ ہوا؟

ج) مالدیپ میں پینسٹھ سال سے زیادہ عمر کے ہر شخص کو اب دو ہزار روپے کی پینش دی جارہی ہے۔ اس کام کے لیے چار سو بتیس ملین روپے مختص کیے گئے ہیں۔ یہ پیسہ ہم نے صدارتی محل کو استعمال نہ کرکے بچایا ہے۔
س) جہاں تک ماحولیات میں تبدیلی کا سوال ہے، آپ نے کہا ہے کہ جو کچھ کرنا ہے وہ مالیپ کو ہی کرنا ہے، لیکن یہ ایک عالمی مسئلہ ہے اس میں مالدیپ تنہا کیا کرسکتا ہے؟

ج) میرا مطلب یہ تھا کہ اس صورتحال سے نمٹنے کے لیے ہم تیاری کرسکتے ہیں۔ مثال کے طور پر ہم مصنوعی طور زمین کی سطح اونچی کرسکتے ہیں تاکہ سطح سمندر میں اضافے کے اثر کو زائل کیا جاسکے۔ اور ساتھ ہی ہم اپنی آواز اٹھا سکتے ہیں تاکہ دنیا ہمارے مسائل کو سمجھ سکے۔
س) اور آپ عالمی برادری سے کس طرح کی مدد مانگ رہے ہیں؟

ج) ہمیں ٹیکنالوجی کے ٹرانسفر کی بات کر رہے ہیں اور مالی امداد کی بھی۔
س) اگر آپ کوپن ہیگن کانفرنس میں شرکت کر پاتے ہیں تو دنیا کو کیا پیغام دیں گے؟

ج) میرا پیغام یہ ہوگا کہ یہ صرف آب و ہوا میں تبدیلی کا معاملہ نہیں ہے۔ یہ سکیورٹی کا بھی معاملہ ہے اور ہمارا ماننا ہے کہ انسانی حقوق کا بھی۔ کوینکہ ہمیں بھی زندگی کا حق حاصل ہے۔ اور مالدیپ میں حالات کو بہتر بنانے اور موسم میں تبدیلی کے مسئلے سے نمٹنے کے لیے جمہوریت کو مضبوط کرنا اور اچھی حکمرانی کو یقینی بنانا بھی ضروری ہے۔
س) آپ نے حال ہی میں ہندوستان کے ساتھ دفاع کے شعبے میں تعاون کا معاہدہ بھی کیا ہے۔ آپ کو ہندوستان سے کیا مل رہا ہےاور بدلے میں اپ کیا دیں گے؟

ج) کوئی دفاعی معاہدہ نہیں ہوا ہے، ہم نے ہندوستان سے رڈار سسٹم مانگے تھے تاکہ ہم اپنی سرحدوں کی نگرانی کرسکیں۔اور ہندوستان نے ہمیں یہ آلات فراہم کردیے ہیں۔
س) لیکن یہ اطلاعات بھی تھیں کہ بدلے میں آپ ہندوستان کو فوجی ٹھکانے قائم کرنے دیں گے؟

ج) ایسی کوئی بات نہیں ہے۔ یہ تاثر بالکل بے بنیاد ہے۔ مجھے معلوم ہے کہ سازش کی تھیوریاں کتنی آسانی سے گردش کرنے لگتی ہیں۔لیکن ان میں کچھ تو سچائی ہونی چاہیے۔
س) جناب صدر، آپ کی حکومت اس بات پر بھی غور کر رہی تھی کہ کسی دوسرے ملک میں زمین خرید لی جائے تاکہ سطح سمندر میں اگر خطرناک حد تک اضافہ ہوتا ہے تو مالدیپ کی آبادی کو کہیں اور بسایا جاسکے۔ کیا اس منصوبے میں کوئی پیش رفت ہوئی ہے؟

ج) دیکھیے، بنیادی بات یہ ہے کہ ہمیں خشک زمین کی ضرورت ہے۔ اگر یہاں سمندر کی سطح میں اضافہ ہوتا ہے تو ظاہر ہے کہ ہمیں کہیں نہ کہیں زمین کی ضرورت ہوگی۔ لیکن یہ کوئی فوری ضرورت نہیں ہے۔ لیکن اگر ایسی نوبت آتی ہے تو اس کے لیے ہمیں مالی اعتبار سے تیار رہنا ہوگا۔ ہمارے پاس ایک پلان بی بھی ہونا چاہیے۔
س) تو آپنے کن ممالک کی نشاندہی کی ہے؟

ج) ہم یہ مطالبہ کر رہے ہیں کہ اگر مالدیپ کے لوگ زمین خریدنا چاہیں تو انہیں ٹیکس کے نظام میں رعاتیں دی جائیں۔ کیونکہ ہم ایسی قوم ہیں جسے اپنی زمین سے محروم ہوجانے کا خطرہ لاحق ہے۔ ہم ایک ہی جگہ بہت ساری زمین خریدنے کے بارے میں نہیں سوچ رہے ہیں۔ لیکن مثال کے طور پر اگر ہم ہندوستان یا سری لنکا میں زمین خریدیں تو ہمیں کچھ رعایتیں ملنی چاہئں۔
س) تو کیا آپ ہندوستان یا سری لنکا کو ترجیح دیں گے؟

ج) بالکل، ہندوستان اورسری لنکا ہمارے لیے بہترین جگہ ثابت ہوں گی۔ لیکن ابھی کوئی حتمی فیصلہ نہیں کیا گیا ہے۔
س) اور آخر میں یہ اور بتائیے کے مالدیپ میں سیاحت کی حالت اب کیسی ہے؟

ج) اقتصادی مندی سے سیاحوں کی آمد پر بھی اثر پڑا تھا لیکن اب حالات بہتر و رہے ہیں اور سال کے اواخر تک امید ہے کہ معمول پر آجائیں گے۔ گزشتہ برس سات لاکھ سیاح آئے تھے اور اس برس بھی ہم اس تعداد تک پہنچ جائیں گے۔(یکن مالدیپ میں ماحولیاتی توازن قائم رکھنے کے لیے) ہم سیاحوں کی تعداد دس لاکھ کے اندر ہی رکھنا چاہتے ہیں۔

http://www.bbc.co.uk/urdu/world/2009/09/...t_np.shtml
Reference URL's