Pakistan Real Estate Times - Pakistan Property News

Full Version: Ramzan, Pakistan & Muslim World
You're currently viewing a stripped down version of our content. View the full version with proper formatting.
وہ وہ ہیں، ہم ہم ہیں!

وسعت اللہ خان

بی بی سی اردو ڈاٹ کام، اسلام آباد

[Image: 090309115406_wusat_byline_106x60.jpg]


[Image: 090823105608_ramazan1_283.jpg]
پنجاب میں حکومت نے آٹا سرکاری نرخوں پر فراہمی کا اعلان کیا ہے لیکن وہ کیسے اور کسے مل رہا ہے؟



سن دو ہزار تین کے رمضان سے ایک روز پہلے میں استنبول پہنچا۔ نیلی مسجد کے قریب ایک ریسٹورنٹ میں رات کا کھانا کھایا۔ اگلے روز شام کو میں افطار کے موقع پر دوبارہ اسی ریسٹورنٹ میں گیا اور دہی کے شوربے میں پکے ہوئے بھیڑ کے گوشت کی وہی ڈش طلب کی جو گذشتہ روز منگوائی تھا۔ بل آیا دو سو دس ملین لیرا۔ میں نے ویٹر سے پوچھا کل تم نے اسی ڈش کے مجھ سے تین سو ملین لیرا لیے تھے۔ آج دو سو دس ملین لیرا لے رہے ہو معاملہ کیا ہے؟ بیرا کہنے لگا رمضان میں ہم خصوصی ڈسکاؤنٹ دیتے ہیں۔ کمانے کے لیے تو سال میں گیارہ مہینے پڑے ہیں۔

میں نے یہ کالم لکھنے سے پہلے رمضان میں مختلف مسلمان ملکوں میں اشیائے ضرورت کی قیمتیں معلوم کرنے کے لیے کئی ویب سائٹس کو چھانا اور کچھ اس طرح کی معلومات سامنے آئیں۔

متحدہ عرب امارات کی وزارتِ اقتصادیات نے خوراک درآمد کرنے والی چالیس کمپنیوں اور سپر سٹورز سے قبل از رمضان معاہدہ کیا کہ کھانے پینے کی دو سو اشیا کی قیمتوں میں دورانِ رمضان ساٹھ فیصد تک کمی کر دی جائے گی اور چاول، چینی اور خوردنی تیل زیرو منافع پر فروخت ہوگا۔

حکومتِ قطر نے حکم جاری کیا ہے کہ تمام فوڈ سٹورز ایک سو چار ضروری اشیا ایک ماہ تک صرف قیمتِ خرید پر بیچیں گے۔ تاہم حکومت نے سیل پرموشن کے تمام آئٹمز کو ایک ماہ کے لیے ٹیکس سے مستثنیٰ قرار دے دیا ہے۔

حکومتِ کویت نے اس سال بھی رمضان سے ایک دن پہلے تک ہفتے بھر کی خوراک نمائش کا انعقاد کیا جس میں سو سے زائد مقامی و غیرمقامی کمپنیوں نے اشیائے ضرورت پچاس فیصد کم نرخ یا ایک کے بدلے دو کے اصول پر فروخت کیں۔

سعودی اخبار عکاظ کی خبر ہے کہ رمضان میں اشیائے ضرورت کی خریداری میں تیس فیصد تک اضافہ ہوجاتا ہے۔ لیکن اس سال ان اشیا کی قیمتوں میں دس سے تیس فیصد کمی کو یقینی بنایا گیا ہے۔

آپ کہہ سکتے ہیں کہ بھئی یہ کیا بات ہوئی۔آپ توصرف تیل کی آمدنی سے مالامال ان خلیجی ریاستوں کی بات کر رہے ہیں جو رمضان میں قیمتوں میں کمی کی عیاشی برداشت کرسکتی ہے۔

چلیے مصر چلتے ہیں جو کوئی امیر ملک نہیں ہے۔ وہاں دارالحکومت قاہرہ کے تاجروں کی انجمن نے ازخود فیصلہ کیا ہے کہ بیرونِ ملک سے آنے والے خوردنی آئٹمز پر شرح منافع دس فیصد اور ملکی آئٹمز پر شرح منافع پانچ فیصد تک رکھی جائے گی۔ جب کہ رمضان میں گھروں میں تیار کی جانے والی خصوصی غذائی اشیا میں استعمال ہونے والے اجزا تیس فیصد کم قیمت پر فروخت کیے جائیں گے۔

تیونس میں انجمنِ دفاعِ صارفین کے رضاکار اس بات کو یقینی بنا رہے ہیں کہ دکاندار ایک ماہ تک اشیائے ضرورت کے نرخ جلی حروف میں آویزاں کریں۔ بصورتِ دیگر دکان کے لائسنس کی منسوخی کا قانون حرکت میں آ سکتا ہے۔

لبنان میں سیاسی جماعتیں اس برس بھی لاکھوں مستحقین میں ایک ماہ کے بنیادی راشن پر مشتمل رمضان ایڈ کٹ تقسیم کر رہی ہیں۔

ملیشیا کی حکومت حسبِ روایت کوالالمپور سمیت تمام اہم شہروں میں رمضان فیسٹیولز منعقد کر رہی ہے جن میں کوئی بھی دوکاندار چودہ رنگٹ کرایہ دے کر سرکاری نرخوں پر اشیا فروخت کرنے کے لیے سٹال لگا سکتا ہے۔

بنگلہ دیش چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹریز نے تاجروں سے صلاح مشورے کے بعد اعلان کیا ہے کہ اگرچہ گذشتہ دو برس میں بین الاقوامی اقتصادی حالات کے سبب خوراک کی قیمت دوگنی ہوگئی ہے۔ لیکن ایک ماہ تک دو اقسام کے چاول، تین دالیں، دودھ، پیاز، خوردنی تیل، چینی اور آٹا پانچ فیصد کم قیمت پر فروخت ہوگا اور یہ نقصان رمضان میں عام دنوں سے زیادہ خریداری کے عمومی رحجان سے پورا ہوجائےگا۔

کراچی میں جمعہ کو جو کھجور ایک سو بیس روپے فی کیلو دستیاب تھی آج اتوار کو پہلے روزے کے موقع پر تین سو روپے کیلو میں بک رہی ہے۔


http://www.bbc.co.uk/urdu/columns/2009/0..._sen.shtml

رمضان مبارک مگر…!



رفیق ڈوگر


رمضان مبارک! ہوئی تاخیر تو کچھ باعث تاخیر بھی تھا۔ جانے اور انجانے دوستوں کے رمضان مبارک کے پیغام آتے رہے جس کا جواب دے سکا دیدیا اور عذاب و ثواب کے بارے میں سوچتا رہا۔ یہی کہ رمضان مبارک! مگر کسے؟ نتیجہ یہی تھا کہ ’’جسے اللہ چاہے‘‘ اللہ کے رسولﷺ نے فرمایا ’’جو بھی کوئی حج کیلئے جائے‘ نواح مکہ میں پہنچتے ہی جب اسے بیت اللہ نظر آئے تو وہ جو بھی دعا مانگے اللہ تعالیٰ قبول فرما لیتے ہیں لیکن اگر کوئی صحرائوں کا طویل سفر کر کے مکہ پہنچا ہو‘ اس کا لباس گرد آلود ہو‘ سر کے بالوں اور داڑھی میں مٹی جمی ہو تو بھی اگر اس کا رزق حلال نہیں تو اس کی ایسی کوئی دعا قبول نہیں ہو گی‘‘۔ بازاروں میں‘ مارکیٹوں میں عورتوں اور بچوں اور جوانوں کو آٹے‘ چینی اور دیگر ضروریات رمضان کی تلاش میں اس گرمی اور حبس میں طویل لائنوں میں کھڑے پولیس کی لاٹھیاں کھا کھا کر گرتے اور ادھ موئے ہوتے دیکھ کر یہ خیال پیچھا نہیں چھوڑ رہا تھا کہ رمضان کس کس کے لئے مبارک ہے اور کس حوالے سے اسے مبارکباد دی جا سکتی ہے۔ کیا سب ہی کو رمضان مبارک کہہ دینا چاہئے؟ یہ جانے بغیر کہ وہ اس ماہ رمضان کا احترام کیسے کر رہا ہے۔ اپنے روزے کے تقاضے کیسے پورے کر رہا ہے؟ کیا کسی ذخیرہ اندوز کے‘ کسی چینی چور کے رمضان مبارک کے جواب میں ’’رمضان مبارک‘‘ کہہ دینا چاہئے؟ کسی کوکلا چھپاکی کے کھیل والے کے حق میں اس دعا پر پکڑ تو نہیں ہو جائے گی؟ ایک روز بس میں ایک صاحب کتابچہ فروخت کر رہے تھے‘ بلند آواز میں مسافروں کو فضائل درود شریف سے آگاہ فرما رہے تھے۔ درود اور اسکے فضائل کے اس کتابچے میں ان صاحب کے مطابق جنت میں داخلے کا آسان نسخہ بند تھا۔ قریب آیا تو عرض کیا حضور اگر میں آپ سے یہ سب کتابچے چھین لوں‘ وہ رقم بھی جو آپ کی جیب میں ہے نکال لوں اور آپ کو دھکے دیکر بس سے باہر پھینک دوں تو میرا یہ گناہ عظیم کتنی بار درود شریف پڑھ لینے سے معاف کر دیا جائے گا؟ فرمایا ’’اس کا تعلق تو حقوق سے ہے یہ تو کسی صورت معاف نہیں ہو سکتا‘‘۔ خیال یہی آتا رہا کہ کیا مہنگائی‘ ذخیرہ اندوزی والے‘ کوکلا چھپاکی والے‘ حکمرانی والے‘ سرکار دربار والے اور آزاد عدلیہ والے ہر کسی کے حق حقوق ادا کر رہے ہیں؟ اللہ تعالیٰ تو فرماتے ہیں کہ ’’روز حساب اگر میں چاہوں تو اپنے نماز‘ روزہ‘ حج‘ زکوٰۃ والے حقوق کی کوئی خلاف ورزی کسی کو معاف کر دوں گا لیکن کسی انسان کا کسی دوسرے نے اگر کوئی حق ادا نہیں کیا ہو گا تو وہ میں کسی صورت معاف نہیں کروں گا‘‘۔
کائنات کے خالق و مالک کا یہ اعلان حق قرآن کریم میں موجود ہے اور ماہ رمضان میں ملک کی لاکھوں مساجد میں قرآن پڑھا اور سنا جائے گا‘ کروڑوں مسلمان روزے رکھیں گے اور نماز تراویح میں کھڑے ہو کر سر جھکا کر قرآن کریم سنیں گے۔ ان میں دکاندار بھی ہوں گے‘ وہ بھی ہو سکتے ہیں جن پر ذخیرہ اندوزی اور مہنگائی کے الزام لگائے جا رہے ہیں۔ حکمران اور سیاست خان بھی ہو سکتے ہیں۔ تو کیا وہ سب اللہ تعالیٰ کے اس حکم سے آگاہی کے بعد دوسروں کے حقوق کی ادائیگی شروع کر دیں گے؟ وہ مان لیں گے کہ یہ وہ گناہ ہے جو اللہ تعالیٰ کسی صورت معاف نہیں فرمائیں گے؟ اگر ایسا ہو جائے اور ہماری دعا ہے کہ ایسا ہو ہی جائے تو کتنی بڑی رحمت ثابت ہو گا ماہ رمضان ہمارے لئے اور ہمارے ملک کے لئے۔ واقعی یہ رحمتوں اور برکتوں کے نزول کا مہینہ ثابت ہو جائے گا لیکن کیا یہ مہینہ پہلی بار آ رہا ہے؟ پہلے بھی تو ہر سال رحمتوں اور برکتوں والا یہ مہینہ آتا رہا ہے۔ پہلے بھی تو ملک کے طول و عرض میں مساجد میں راتوں کو تراویح میں کروڑوں لوگ قرآن سنتے رہے ہیں۔ پہلے کیوں نہیں آئی ایسی کوئی تبدیلی اب تک؟ تو پھر کہا جا سکتا ہے ہر کسی کے جواب میں ’’رمضان مبارک‘‘۔ کہا تو یہی جا سکتا ہے کہ ’’جسے اللہ چاہے‘‘ اور اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں ایک بار نہیں بار بار فرمایا ہے کہ ہم نے انسانوں کو فیصلے کی آزادی دے رکھی ہے۔ انہیں حق اور باطل سے آگاہ کر دینے کیلئے قرآن کریم نازل کر دیا ہے۔ اس کو جان لینے کے بعد اگر کوئی اپنی اصلاح نہیں کرتا تو اسے اس کی آزادی ہے مگر ہم اس کا کڑا احتساب کریں گے۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ جب تک کوئی اپنے آپ کو خود تبدیل نہیں کرتا ہم اسے تبدیل نہیں کیا کرتے۔ کسی پر زوال اور عذاب آتا ہے تو اس کی وجہ بھی اس کا اپنے آپ کو تبدیل کر لینا یعنی ہمارے احکام کی پابندی چھوڑ دینا ہوتی ہے اور اگر کسی گروہ کی کسی قوم کی یا کسی فرد کی دنیاوی حالت ہم بہتر کر دیتے ہیں تو اس کا سبب بھی ان کا اپنے آپ کو تبدیل کر لینا یعنی ہمارے احکام پر عمل شروع کر دینا ہوتا ہے۔ کیا ہم سب اس ماہ رمضان میں اپنے آپ کو اندر سے تبدیل کر لینے کا فیصلہ کر لیں گے قرآن کریم پڑھ سن کر؟ ہم جو ہوئے بے علم کیا کہہ سکتے ہیں؟ اس کے سوا کہ رمضان مبارک مبارک جسے اللہ چاہے۔ شاعر بنگال نذر الاسلام کی ایک نظم کا ایک شعر پڑھ لیں۔ (ترجمہ)
’’جن غریبوں کی ہڈیوں کے تیل سے ریل گاڑی چلتی ہے۔ وہ تو نیچے رہیں اور نکمے بابو اس گاڑی میں سوار مزے کریں؟‘‘ وہ پوچھتا ہے غریب کب تک اسی حالت میں رہے گا؟ اور میں سوچتا رہا ہوں کہ اس ماہ رمضان میں بھی غریب اسی حالت میں رہے گا اور اقتدار و اختیار کی گاڑی کے مزے نکمے بابو صاحبان کے لئے ہی ہوں گے؟ تو پھر کسی نکمے بابو کے حق میں کیا مبارک کہا جائے؟ مزے مبارک؟ لوک مبارک؟ کھیل مبارک؟


http://www.nawaiwaqt.com.pk/pakistan-new...-2009/3941
Reference URL's