Pakistan Real Estate Times - Pakistan Property News

Full Version: رئیل اسٹیٹ انڈسٹری کاالمیہ (ملک ریاض حسین)
You're currently viewing a stripped down version of our content. View the full version with proper formatting.
رئیل اسٹیٹ انڈسٹری کاالمیہ (ملک ریاض حسین)
ھ ایسی تجاویز دوں جن پرحکومت عملدرآمد کرے اور پاکستان میں پراپرٹی کی قیمتیں دوبارہ اوپر چلی جائیں میں نے ان سے عرض کیا پہلے تو ہمیں یہ سوچنا چاہیے کہ پاکستان میںرئیل اسٹیٹ کے شعبے نے ترقی کیوں نہیں کی اور ہر آنے والے دن یہ نیچے سے نیچے کیوں چلا جا رہا ہے انہوں نے پوچھا ’’ ہاں آپ وجوہات بتائیے‘‘ میں نے عرض کیا ’’ رئیل اسٹیٹ کی ناکامی کی تین بڑی وجوہات ہیں پہلی وجہ سٹاک ایکسچینج ہے۔ہماری حکومت جان بوجھ کرسٹاک ایکسچینج کوطاقت کے ٹیکے لگاتی رہی ہے۔ اس کے نتیجے میں سٹاک ایکسچینج پانچ، چھ مہینے کیلئے طاقت پکڑتی ہے،بے شمار غریب اورمڈل کلاس لوگ اس میں پیسہ ڈالتے ہیںاورپاکستان کے چند امراء یہ پیسہ اپنی جیب میں ڈال کرفرار ہوجاتے ہیں‘‘ جس کے نتیجے میں ہماری سٹاک ایکسچینج کریش ہوجاتی ہے۔ پانچ چھ ماہ بعد حکومت دوبارہ سٹاک ایکسچینج کوطاقت کاٹیکہ لگاتی ہے ،دوبارہ لوگ اس میںسرمایہ جمع کرتے ہیںاور یہ سرمایہ بھی کچھ بڑے لوگ لے کرفرار ہوجاتے ہیں میں نے عرض کیا’’سٹاک ایکسچینج آج پھر اوپر جارہی ہے اس کی وجہ ہماری حکومت ہے ہماری حکومت پچھلے پورے مہینے سے سٹاک ایکسچینج میں پیسہ ڈمپ کررہی ہے مصنوعی طریقہ سے سٹاک ایکسچینج کواوپر لے جایا جارہاہے اورایک دو دن بعد سٹاک ایکسچینج کریش کرجائے گی جس سے بے شمار لوگوں کودل کے دورے پڑ جائیںگے۔ اس بار بھی سٹاک ایکسچینج کا یہ عروج کچھ لوگوں کوامیرسے امیر تر اوربہت سارے لوگوں کوغریب سے غریب تر بنادے گا‘‘۔ انہوں نے مجھ سے پوچھا’’ سٹاک ایکسچینج کاپراپرٹی سے کیاتعلق ہے‘‘۔ میں نے عرض کیا’’ اس کاپراپرٹی کے ساتھ بڑا گہرا تعلق ہے۔ دنیا کاکوئی بھی بزنس ہووہ ہمیشہ خریدار کی قوت خرید پرچلتا ہے پراپرٹی بھی ایک کاروبار ہے لہٰذا اگر مارکیٹ میں پیسہ ہوگا تو یہ کاروبار بھی مضبوط ہوگا اگر لوگوں کی جیب میں کھانے کیلئے پیسے نہیں ہوںگے تو وہ گھر کہاںسے خریدیںگے۔ وہ تعمیرات کہاںسے کریںگے۔ جب حکومت سٹاک ایکسچینج کو مصنوعی طریقے سے اوپر لے کرجاتی ہے تو مارکیٹ سے سارا پیسہ غائب ہوجاتاہے لوگ بینکوںاور فیکٹریوں سے پیسہ نکال کرسٹاک ایکسچینج میںلگاتے ہیں وہ اپنی بیوی،بیٹیوں، بہوؤں اور بچوں کاپیسہ ،پلاٹ اور مکان بیچ کر زیادہ منافع کے چکر میں سٹاک ایکسچینج میںلگا دیتے ہیں حکومت کی اس غلط پالیسی کی وجہ سے سارا پیسہ سٹاک ایکسچینج میںڈوب جاتاہے جس کے بعد ساری صنعتیں زوال کاشکار ہوجاتی ہیں‘‘۔
انہوں نے مجھ سے اتفاق کیا اورکہااس کی دوسری وجہ کیاہے میں نے کہااس کی دوسری وجہ سیونگ سرٹیفکیٹس ہیں حکومت آئے دن ڈیفنس سیونگ سرٹیفکیٹ اوربچت سرٹیفکیٹ مارکیٹ میں فلوٹ کرتی رہتی ہے۔ان سرٹیفکیٹس کے بدلے بھاری منافع اورسود کی پیشکش کی جاتی ہے لوگ سود کے چکر میں آجاتے ہیںاوروہ بھی اپنازیور، پلاٹ اور مکان بیچ کرسرمایہ سیونگ سرٹیفکیٹس میں لگا دیتے ہیں۔ جس کانقصان بالآخر رئیل اسٹیٹ کو پہنچتاہے۔ انہوں نے پوچھا اوراس کی تیسری بڑی وجہ کیاہے۔ میں نے کہااس کی تیسری بڑی وجہ حکومت کی لیونگ پالیسی ہے۔ حکومت اوربینکس گھربنانے کیلئے اس قدر زیادہ شرح سود پرقرضہ دیتے ہیں کہ لوگوں کیلئے گھر بنانا ممکن نہیںرہتا۔ چنانچہ اس لیونگ پالیسی کی وجہ سے رئیل اسٹیٹ انڈسٹری اپنے قدموں پرکھڑی نہیںہوتی۔ میں نے ان سے عرض کیاجب تک حکومت رئیل اسٹیٹ کوایک الگ انڈسٹری کی حیثیت نہیںدیتی اوراس کیلئے علیحدہ اصول اورقاعدے مرتب نہیں کرتی، جب تک وہ سٹاک ایکسچینج کوسیونگ سرٹیفکیٹس کے اثرات سے نہیںبچاتی۔ اس وقت تک پاکستان میںرئیل اسٹیٹ کھڑی نہیںہوسکتی۔
مجھے معلوم ہے حکومت کومیری تجاویز سے کوئی دلچسپی نہیںہوگی۔ کیونکہ حکومت صرف ان تجاویز پرعمل کرتی ہے جن پرحکومت یاحکومتی عہدیداروں کوبراہ راست منافع نظر آتاہے۔ بدقسمتی سے پاکستان میں ہروہ تجویز کوڑے کی ٹوکری میں چلی جاتی ہے جس کے ساتھ کسی ایم این اے، کسی وزیر یاکسی دوسرے حکومتی عہدیدار کا ’’انٹرسٹ‘‘ شامل نہیںہوتا۔ جبکہ آپ دنیا کے دوسرے ملکوں کودیکھیںتو معلوم ہوتا ہے پوری دنیا ہم سے رئیل اسٹیٹ سیکٹر میں آگے ہے۔ مثلاً آپ برادر اسلامی ملک ترکی کی مثال لیجئے۔ ترکی میں حکومت گھر بنانے کیلئے اپنے شہریوں کودو سے تین فیصد شرح سود پرقرضے فراہم کرتی ہے وہاں کوئی بھی بے گھر شخص بینک چلاجائے،اپنے کاغذات دے اوراسی وقت دوسے تین فیصد شرح سود پر25سے30 سال کیلئے قرضہ حاصل کرسکتاہے۔ جبکہ اگر ترکی میں کوئی کاروبار کیلئے قرضہ لینا چاہے تو اسے پاکستان کی طرح15سے20 فیصد تک سود ادا کرنا پڑتاہے۔ ترکی کی حکومت کی یہی پالیسی ہے جس کی وجہ سے آج تک ترکی کے زیادہ سے زیادہ شہریوں کے پاس اپنافلیٹ، اپنا مکان یااپنافارم ہاؤس ہے۔ ترکی دنیا کاواحد ملک ہے جہاں بے گھر لوگوں کی تعداد انتہائی کم ہے۔ یہ فارمولا بعد ازاں سپین نے بھی کاپی کیاتھا۔ سپین میں بھی آپ انتہائی کم شرح سود پرمکان اورگھر بنانے کیلئے قرضہ حاصل کرسکتے ہیں۔وہاںتو بے گھر اورغریب لوگوںکوانتہائی کم قیمت پرکنسٹرکشن میٹریل بھی ملتا ہے ۔میں کچھ عرصہ پہلے سپین گیاتھا۔ میں مالیگا کے ایئرپورٹ پراترا تھا۔ مالیگا سپین کے صوبے ہسپانیہ کاساحلی شہر ہے۔ اس کے ساحل پوری دنیا میںمشہور ہیں۔ ساحل کنارے دنیا کے بڑے بڑے امراء کے محلات،ولاز اورگھر ہیں۔ ہمارے سٹار عمران خان کے بارے میں بھی لوگوں کاخیال ہے کہ انہوں نے مالیگا بیچ کے کنارے ایک بنگلہ خرید رکھاہے کیونکہ اس بات کی ابھی تک تصدیق نہیں ہوئی لہٰذا یہ زیادہ یقین سے نہیں کہاجاسکتا لیکن یہ حقیقت اپنی جگہ موجود ہے اس ساحل پر دنیا کے بڑے بڑے امراء کے ولاز اور بنگلے موجود ہیں۔میںمالیگا کے ایئرپورٹ سے ماردیہ گیاتھا مالیگا سے ماردیہ کافاصلہ76 کلومیٹرہے۔ان دونوں مقامات کے درمیان بڑے بڑے پہاڑ موجودہیں۔ میں نے اس 76کلومیٹرکے ایریا میں ایک انچ زمین بھی غیر تعمیر شدہ نہیں دیکھی پورے 76کلو میٹر علاقے کے دونوں طرف مکان، ولاز اوراپارٹمنٹس بنے ہوئے تھے۔ یہ ساری تعمیرات صرف پانچ برسوں میں مکمل ہوئی ہیںاوریہ سپین کے نئے نظام کانتیجہ ہیں۔ سپین نے2001 ء میں نئی کنسٹرکشن پالیسی جاری کی تھی۔ جس کے مطابق ہرشہری مکان کیلئے انتہائی کم شرح سود پرقرضہ لے سکتا ہے لیکن اس شہری کیلئے ضروری ہے وہ یہ مکان ذاتی استعمال کیلئے تعمیر کرے۔25 سال تک اس میںمقیم رہے اورفروخت نہ کرے۔ اس پالیسی کی وجہ سے پورے ملک میں بے تحاشا تعمیرات ہوئیںاوربے شمار لوگوں کوچھت نصیب ہوگئی۔ اس کے ساتھ ساتھ سپین کی معیشت کوبھی بے تحاشا فائدہ ہوا۔
کنسٹرکشن انڈسٹری دنیا کی واحد انڈسٹری ہے جس میں ہریونٹ 45سے70 لوگوں کوروزگار فراہم کرتاہے اوریہ شعبہ72قسم کی انڈسٹریز کوتحریک دیتاہے۔ پوری دنیا اس فارمولے سے فائدہ اٹھا رہی ہے مہاتیر محمد سے لے کرمحمدبن راشد المکتوم تک دنیا کے تمام جدید لیڈروں اورسربراہوں نے اس فارمولے کے ذریعے اپنی قوم کوترقی دی لیکن ہم لوگ بدقسمتی سے ہراس چیزسے سبق سیکھنے کیلئے تیار نہیںہوتے جس سے فائدہ پہنچنے کے حتمی امکانات ہوتے ہیں ہم ایسے لوگ ہیں جوسیب کے درخت پرکیلا اگانے کی کوشش کرتے ہیںاورکیلے کے درخت پرسیب۔ ہم دائیں ہاتھ سے بایاں اوربائیں ہاتھ سے دایاں کان پکڑنے کی کوشش کرتے ہیں اس کانتیجہ ہے ہم آج کے دور میں بھی لوگوںسے رئیل اسٹیٹ انڈسٹری کوبہتر بنانے کے فارمولے پوچھتے رہتے ہیں۔ اگرمیرا بس چلے تو میں پاکستان کے سارے معیشت دانوں کودھکے دے کرباہر نکالوںاورانہیں کراچی سے لے کر سوست تک لوگوں سے ملواؤں اور ان سے کہوںتم اپنے ان تجربات کی بنیاد پر کوئی ٹھوس اور مثبت پالیسی بناؤ۔ مجھے شرم سے کہنا پڑتا ہے پاکستان کی پالیسیاں وہ لوگ بناتے ہیں جوزمینی حقائق سے ہزاروں میل فاصلے پربیٹھے ہوتے ہیں۔پاکستان کی بدقسمتی دیکھئے یہاں شوگر انڈسٹری کے مسائل حل کرنے کیلئے ایک ایسے شخص کوذمہ داری سونپی جاتی ہے جسے یہ معلوم نہیںہوتا گنا کس موسم میںاگایا جاتاہے وہ کہاں کہاں کاشت ہوتا ہے اوراسے کس موسم میں کاٹا جاتاہے اورجس نے زندگی میںکبھی چینی بنتے نہیںدیکھی۔ ہماری پوری معیشت ان لوگوں کے ہاتھوں میںہے جنہوں نے آج تک بازار سے دودھ تک نہیں خریدا۔ جنہیں یہ تک معلوم نہیں بازار میں آٹا کس ریٹ پرفروخت ہورہاہے۔ دال کاکیابھاؤ ہے اورچاول کس قیمت پر فروخت ہورہے ہیں۔ پوری دنیا کامتفقہ فیصلہ ہے جب تک انسان خود زمینی حقائق سے واقف نہیںہوتا وہ اچھی اوربہتر پالیسی نہیں بناسکتا لیکن ہم لوگوں نے بدقسمتی سے یہ ملک ان لوگوں کے ہاتھوں میںدے رکھاہے جونہ زمین سے واقف ہیں اور نہ حقائق سے۔
Daily Jinnah, 28/10/2008
Reference URL's