Pakistan Real Estate Times - Pakistan Property News

Full Version: loadshedding, becharay awaam aur wazeer bijli ka khandaan
You're currently viewing a stripped down version of our content. View the full version with proper formatting.
خود راجہ فضیحت

رفیق ڈوگر ـ

اوروں کو نصیحت مگر خود؟ اس محاورے کا دوسرا حصہ کیا ہے جس بھی کسی نے روز رفتہ زر زور زرداری کے بجلی مہا راجہ اور پنجاب کے اعلیٰ ترین خادم کو تاجروں اور عام لوگوں کو قومی جذبے اور ایثار کا مظاہرہ کرنے کا مشترکہ مشورہ دیتے دیکھا سنا تھا اس کو ضرورت ہے اس قدیم محاورے کا دوسرا حصہ بتانے کی؟ جب پورے ملک میں لوگ شدید گرمی میں جل رہے تھے تو وہ دونوں کوٹ زیب تن و توش کر کے قومی جذبے اور ایثار کا شدید مظاہرہ کرتے دیکھے گئے تھے۔ ایسے ہی جیسے بقول خادم اعلیٰ پنجاب وزیر اعظم کی جنگی بنیادوں پر بلائی قومی توانائی کانفرنس کے ہر قسم اور ہر جنس کے شرکاءتین روز تک شدید گرمی میں کوٹ پہن پہن کر قومی جذبے اور ایثار کا مظاہرہ کرتے رہے تھے۔ خادم اعلیٰ نے تو اپنے وزیر اعظم کا اس ایثار و قربانی کے لئے شکریہ ادا کر دیا تھا کیا آپ عوام پر لازم نہیں ان دونوں کا شکریہ ادا کرنا؟ وزیر اعظم سید یوسف رضا گیلانی کا جنگی بنیادوں پر بجلی کے خلاف جنگ لڑنے پر اور خادم اعلیٰ کا جنگی بنیادوں پر ان کا شکریہ ادا کرنے پر پورا محاورہ ہے ”اوروں کو نصیحت خود ملا فضیحت“ جو خادم اعلیٰ کے حوالے سے ”اوروں کو نصیحت اور خود میاں فضیحت“ اور بجلی راجہ کے حوالے سے ”اوروں کو نصیحت اور خود راجہ فضیحت“ دیکھا گیا تھا ۔ اس سے پہلے راجہ بجلی پرویز اشرف نے اہل میڈیا کو اپنے کوٹ کی سلائی دھلائی دکھانے کے دوران بھی ملک کے عوام کو یہی مشورہ دیا تھا کہ ”بجلی کی کمی پر چیخ و پکار نہ کریں بلکہ قومی جذبے اور ملک سے محبت کا مظاہرہ کریں“ اور نفس کسری سے کام لیتے ہوئے یہ نہیں فرمایا تھا کہ ”جس طرح آصف علی زرداری قومی جذبے اور ملک سے محبت کی وجہ سے اپنا سرمایہ بیرون ملک سے واپس نہیں لا رہے اور اپنے بچوں کی تعلیم تک کے بوجھ اندرون ملک کے کسی استاد استانی پر نہیں ڈال رہے“ وہ اپنے آقا و مولیٰ کے اس قومی جذبہ و ایثار کی مثال پیش کرتے تو روک سکتے تھے انہیں خادم اعلیٰ پنجاب اور ان کے قائد بھائی؟ لیکن شاید راجہ بجلی کو احساس تھا کہ اگر کسی نے جواب دیا یا پوچھ لیا کہ ”ہم تو اپنا اور اپنے بچوں کا پیٹ بھی خادم اعلیٰ کے تندور سے ہی سستی روٹی خرید کر بھرتے ہیں۔ آپ کے آقا جیسے قومی جذبے کا مظاہرہ کرنے کیلئے بیرونی بنکوں میں جمع کرانے اور اپنے بچوں کو بیرون ملک پڑھانے کے لئے پیسہ دھیلا کہاں سے لائیں۔ ہم تو چوری‘ کرپشن بھی نہیں کر سکتے کہ ہم عوام ہیں اور ایسے قومی جذبے کے مظاہرے پر ہمیں کوئی قانونی استثنٰی بھی حاصل نہیں“ تو وہ یہ بھی نہیں کہہ سکیں گے کہ امیر ترین آصف علی زرداری جیسے نہیں تو ملک کے تیسرے ان کے امیر ترین شریفین بھائیوں جیسے ہی قومی جذبے اور ایثار کا مظاہرہ کرو۔ خادم اعلیٰ کے ساتھ مل کر ایسا مشورہ تو انہیں ابھی دینا اور دہرانا تھا۔ خادم اعلیٰ پنجاب اس سہ روزہ جنگی کانفرنس سے لائے کیا ہیں اپنے عوام کے لئے اس مشورے کے علاوہ؟ وہی پیغام انقلاب جس سے انہوںنے اقبال کانفرنس کے شرکاءکو بھی آگاہ فرمانا لازم جانا تھا؟ مگر ایسا انقلابی اعلامیہ تو وہ ہر روز جاری فرماتے رہتے ہیں۔ محلوں میں رہنے والے کمیونزم کے پرچار کر انقلابیوں کے بارے میں مذاق ہوتا تھا کہ ”محلوں میں رہ کر جھونپڑیوں کے خواب دیکھنے والے انقلابی کمیونزم کے علمبردار روس کا کریا کرم ہوا تو اور ایسے سب انقلابیوں نے عدت کی مدت بھی پوری نہیں کی تھی اور سرمایہ داری کے علم بردار امریکہ کے ساتھ عقد وعقدی ہو گئے تھے اس وقت سے وہ سب اپنے ماضی پر آپ ہی تھو! تھو! کر کے اپنی اپنی انقلابیت کے پاپی پیٹ پالتے آ رہے ہیں۔ جس طبقہ کو خادم اعلیٰ پنجاب انقلاب سے ڈرا دھمکا رہے تھے وہ ہے کونسا طبقہ وہی طبقہ تو نہیں جس میں بڑی محنت شاقہ و فاقہ سے وہ خود شامل ہوئے ہیں؟ وہی طبقہ جس کے وہ نمائندہ اور خادم اعلیٰ ہیں وہی جس سے تعلق رکھنے والے شدید گرمی میں بھی بھاری کوٹ پہن پہن کر وعظ و نصیحت کرتے آئے ہیں اور کرتے پھرتے ہیں؟ وہی جن کے بچے باہر پڑھتے ہیں وہی جن کا دھن دولت بیرونی ممالک کے بنکوں میں ہی محفوظ رہ سکتا ہے وہی جن کا علاج بھی ان کے زیر حکمرانی ملک کے کسی ہسپتال میں نہیں ہو سکتا وہی جن کے بیرون ملک میں دوبئی تا لندن کاروبار ہیں۔ محلات ہیں اور وہ سب کچھ انہوں نے اس ملک کی خدمت بزنس سے کمایا ہوا اور بیرون ملک پہنچایا ہوا ہے؟ کر سکتے ہیں ملک کے بے بس اور بے کس عوام ایسے قومی جذبے اور ایثار کا مظاہرہ؟ نام انقلاب کا اور کام؟ نام اقبال کا اور عمل؟ کر سکتا ہے کوئی بھی اقبال کی تعلیمات و نظریات سے تھوڑا سا بھی آگاہ بندہ بشر گاندھی کے پیروکاروں اور اس کی گدی کے نشینوں سے کوئی نظریاتی سمجھوتہ؟ جس انقلاب کا خواب اقبال نے دیکھا تھا وہ کیسے آ سکتا ہے؟ اقبال کے مرشد رومی کے الفاظ میں تو نسخہ انقلاب نو ہے کہ:
اول آں بنیاد را ویراں کنند
یعنی اس کے لئے موجود ظلم اور نا انصافی کے نظام کو بنیادوں تک اکھاڑ پھینکنا لازم ہے۔ وہ کیا پنجابی محاورہ ہے کہ ” گلیں وڈی میں تے کرتو تیں وڈی کوئی ہور“ انقلاب آتا ہے تو کل کو آنا آج ہی آ جائے اس کے بغیر نہ اقبال کا خواب پورا ہو سکتا ہے نہ ملا فضیحتوں سے نجات مل سکتی ہے اس قوم نے اقبال کی بتائی راہ پر چلتے ہوئے قومی جذبہ اور ایثار سے ایک ملک حاصل کر لیا تھا اور پھر اس ملک پر اقبال کے دشمنوں کا قبضہ ہو گیا تھا۔ ایسے دشمن جو اقبال کے نام پر اقبال کی توہین کرتے آ رہے ہیں اور اس کی مقدس تعلیمات کو بھی ہمارے کماو بزنس کا ذریعہ بنائے ہوئے ہیں اس قوم اور ملک کو اقبال دشمنوں سے بچانے کے لئے واقعی انقلاب کی شدید ضرورت ہے۔


nawaiwaqt.com.pk
Reference URL's